Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 2

"یہ جونیجو کیسا آدمی ہے،کہیں تم غلط تو نہیں کر رہے اس پر اتنا اعتماد کر کے کہ اُسے وہ کام سونپ دیا جو ہمارے لئے خطرے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور کی بات میں چُھپے ڈر کو سمجھتے ہوئے بلوچ نے سر نفی میں ہلا دیا۔ "میں نے ہر طرف سے پرکھا ہے اُسے وہ ہمارے کام کا آدمی ہے سب سے خاص بات اُسکی یہ کہ وہ مریام شاہ کا ڈسا ہوا ہے اور جو مریام شاہ کا دُشمن وہ ہمارا دوست۔۔۔۔۔" "پھر بھی اُس پر نظر رکھو،اور ایک بات چاہے جتنا بھی اعتماد کرو پر اُسے میرے یا حاکم کے بارے کُچھ نہیں بتاؤ گئے،جونیجو کو بس مریام شاہ کے خلاف استمال کرو،سمجھ رہے ہو نہ میری بات۔۔۔۔وہ اُٹھ کر چہرے پر ماسک چڑھانے لگا۔ "ہاں سمجھ گیا ہوں تم اُسکی فکر نہ کرو میں احتیاط کرونگا،حاکم کب پاکستان آئے گا۔۔۔۔۔"بلوچ بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ "کیوں،حاکم سے کیا کام تُمہیں ۔۔۔۔۔"وہ اب ہاتھوں پر دستانے پہن رہا تھا۔ "حاکم کی منظورِنظر ہے میرے پاس اور اب وہ بائیس سال کی ہونے والی ہے تو اس سے پہلے کہ اُس پر کسی اور کی نظر پڑے اور حاکم کو ناگوار گزرے تو اچھا نہیں وہ اپنی امانت لے جائے۔۔۔۔۔۔" "اگلے ماہ آ رہا ہے وہ،پھر دعوت پہ بُلا کے پیش کر دینا خُوش ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا پیچھے کے دروازے سے باہر نکلا اور وہی کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ "حاکم اگلے ماہ آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"تبھی دوسری طرف مریام شاہ کو یہ میسج ریسیو ہوا تھا جسے دیکھ کر مریام شاہ کے چہرے پر سوچ کی لکیریں صاف نظر آ رہی تھیں۔

"__________________________________"

جونیجو نے سارا سامان اپنی نگرانی میں لوڈ کروایا اور سلطان کو سارا سمجھا کر وہاں سے جانے لگا کہ موبائل کی بپ پر دیکھا جہاں بلوچ کی کال تھی۔اُس نے یس کا بٹن پُش کر کے کان سے لگایا۔ "کام ہو گیا جونیجو۔۔۔۔۔۔"بلوچ کی تشویش زدہ آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔ "یہی سمجھے کہ ہو گیا،جس طرح لکڑی کے اندر اُس سفید پاؤڈر کو پرویا ہے نہ کوئی مائی کا لال بھی اس تک نہیں جا سکے گا چاہے جتنی بھی چیکنگ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔" "بہت زبردست جونیجو،بس اب یہ آرمی کی چوکی سے گُزر جائے تو سمجھو سارا خطرہ ختم۔۔۔۔۔۔" "اُسکی بھی فکر نہ کریں ،اُسکا حل بھی ہے میرے پاس،اب میں فُون رکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے اس نے کال بند کر کے موبائل جیب میں رکھا اور سگریٹ کا کش لیتے ہوئے سلطان کو پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خُود اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی اُس فارم سے نکال کر روڈ پر ڈال دی تبھی اُس نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سُنی پھرتی سے وہ گاڑی سے اُتر کر فارم کی طرف دیکھا جہاں آگ کے بڑے بڑے شُعلے دکھائی دے رہے تھے وہ بھاگ کر قریب آیا اور ششدر رہ گیا وہ دھماکہ ٹرک میں ہوا تھا اور سب جل کر راکھ ہو گیا تھا اُس نے سُلطان کی فکر میں آگے بڑھنا چاہا مگر آگ کے اتنے شعلے نکل رہے تھے جو ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے چُکے تھے کہ آگ فارم کی بنی لکڑی کی چھت کو بھی اپنی لپیٹ لینے لگی۔تبھی فارم کی پچھلی دیوار سے لیاقت اور شمشاد بھاگتے ہوئے آئے تھے جونیجو نے دیکھا جو گھبرائے ہوئے تھے۔ "جونیجو یہ،یہ کیسے ہو گیا،سب برباد ہو گیا اور سلطان وہ بھی جل کر راکھ ہو گیا،بلوچ سائیں تو مار دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"لیاقت کا لہجہ بھی ڈرا سہما تھا۔ "ہاں سائیں کا تو بہت بڑا نُقصان ہو گیا،پانچ کروڑ کا نُقصان وہ معاف نہیں کریں گئے،پر یہ سب ہوا کیسے اور کیا کس نے۔۔۔۔۔۔۔" "میں نے کیا ہے سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک مُسکراتی آواز پر تینوں پلٹے اور نظریں بلیک پجارو سے ٹیک لگائے ایک شخص پر ٹک گئیں۔ "مریام شاہ۔۔۔۔۔"جونیجو کے لبوں سے سرگوشی کی طرح یہ نام ادا ہوا جو لیاقت اور شمشاد کو بھی حیرت زدہ کر گیا۔اُن دونوں نے کافی عرصے سے اُسکا نام تو سُنا ہوا تھا مگر دیکھنے کا اتفاق آج پہلی دفعہ ہوا تھا جو بلیک جینز اور وائٹ شرٹ میں ملبوس کافی مُسکراتے ہوئے انکے ایکسپریشن نوٹ کر رہا تھا۔ "کیسے ہو جونیجو میرے خاص آدمی۔۔۔۔۔"وہ طنزیہ لہجے میں جونیجو کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جس کا چہرہ سپاٹ ہو چُکا تھا۔ "مجھے پتہ تھا اتنا گھٹیا طریقہ تُمہارا ہی ہو سکتا ہے مریام شاہ۔۔۔۔۔" "ارے میں تو بھول ہی گیا تھا تم تو میری رگ رگ سے جانتے ہو آخر پانچ سال تُم نے میرے ساتھ کام کیا،میرے طریقے تو تم جانتے ہو وہاں چوٹ دیتا ہوا جہاں دوسرے کا علاج کروانا مُشکل ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ وہ جیبوں میں ہاتھ پھنسائے انکے قریب آیا تھا۔ "پر افسوس جونیجو تم سے یہ اُمید نہ تھی،تُم کب سے اس کالے دھندے میں پڑ گئے جس چیز کو تم خود چُھونا گناہ سمجھتے تھے آج اُس کے جل جانے پر افسوس کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔" "افسوس تو مجھے تم پر آ رہا ہے مریام شاہ کہ تُم کب سے پیٹ پیچھے وار کرنا شروع ہو گئے،تُمہاری نظر میں تو یہ بزدلی تھی نہ،کہ سچ میں بُزدل ہو گئے ہو۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو کی بات میں جو کاٹ تھی مریام شاہ کی آنکھوں سے ایک آگ نکلی تھی مگر اگلے ہی لمحے وہ ہنس دیا تھا۔لیاقت اور شمشاد جو اسکے غُصے سے ڈر گئے تھے اب حیرت سے اسے ہنستا دیکھ رہے تھے۔ "اچھا لگا تُمہارے لہجے میں چُھپی فکر دیکھ کر،پر وہ کیا ہے نہ اگر جونیجو مجھ سے بدلہ لینے کے لئے بلوچ جیسے آدمی کے ساتھ ہاتھ ملا سکتا ہے اُس کے ہر ناجائز کام کو اپنا فرض سمجھ کے کر سکتا ہے تو مُجھے بھی تو تُمہارے لئے اپنی سطح سے کُچھ نیچے آنا تھا نہ،یہی سمجھو سانپ کو مارنے کے لئے اسکے بل تک رینگ کر جانا ہے،ابھی کے لئے بس اتنا پھر مُلاقات ہو گی کسی اچھی جگہ۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکراتا ہوا بلیک گلاسز آنکھوں پر چڑھا کر اپنی گاڑی کی طرف چل دیا کہ پھر رُکا اور پلٹ کر جونیجو کو دیکھا جو کہ نفرت زدہ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔ "بلوچ کو میرا سلام کہنا،یقنناً اُسے میرا یہ تحفہ بہت پسند آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دل جلا دینے والی مُسکراہٹ جونیجو کی طرف اچھالتا اپنی گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی فراٹے بھرتی وہاں سے نکلی تھی۔ "تُم دونوں اس آگ کو بُجھانے کی کوشش کرو میں بلوچ سے ملنے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔"جونیجو نے ان دونوں سے کہا پھر انکے سر ہلانے پر گاڑی کی برف بڑھا۔

"_________________________________"

"ایک اور ناکامی ایک اور ہار اُس مریام شاہ کے ہاتھوں۔۔۔۔۔"قادر بلوچ نے ہاتھ میں پکڑا اپنے پسندیدہ مشروب کا گلاس اتنی زور سے سامنے دیوار پر مارا تھا کہ گلاس چکنا چُور ہو کر زمین بوس ہو گیا۔اُس کے طیش اور ولولے سے پاس کھڑے گھمن اور نتاشا بھی کانپ کر رہ گئی مگر جونیجو ہنوز پُرسکون تھا کیونکہ اُسے بلوچ کے غُصے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا بلکہ جو نقصان بلوچ کا ہوا تھا ایک طرف سے اسے خُوشی تھی وہ بلوچ کے حرام دھندوں سے نفرت کرتا تھا مگر چُپ تھا تو صرف مریام شاہ سے بدلے کی آگ کی وجہ سے کام اسے افسوس تھا مگر وہ بس سلطان کی موت کا جو بیچارہ بغیر کسی جُرم کے اتنی بھیانک سزا پا گیا تھا۔ "ریلکیس بلوچ سائیں،آپ کے اس طرح غُصہ کرنے سے سب ٹھیک تو نہیں ہو جانا بلکہ ُالٹا آپ خود کو تکلیف دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو کے پُرسکون لہجے پر بلوچ نے اپنی سُرخ آنکھیں اس پر ٹکائیں۔ "بہت کاری وار کیا اُس مریام شاہ نے،پیٹ پیچھے چُھڑا گھونپ دیا پانچ کڑور کا نُقصان کر دیا میرا۔۔۔۔۔۔" "اب لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ بلکہ یہ سوچنے کا ٹائم ہے کہ اس نُقصان کو کم کیسے کیا جائے۔۔۔۔۔"جونیجو نے سپاٹ لہجے میں اُسکی بات کاٹی جس پر گھمن اور نتاشا حیران رہ گئے بلوچ جسے آسانی سے اگنور کر گیا ورنہ وہ اپنی بات کاٹنے والے کا پتہ صاف کر دیتا تھا۔ "کوئی طریقہ نہیں جونیجو اُس نقصان کو پورا کرنے کا،مریام شاہ تو دُھت ہوگا اپنی کامیابی پر جشن منا رہا ہوگا پر میں اُسے زیادہ دیر جشن منانے نہیں دونگا۔۔۔۔۔"بلوچ کی آنکھوں میں مریام شاہ کو زندہ نگل لینے کی چنگاری دیکھ کر جونیجو مُسکرایا یہی تو وہ چاہتا تھا۔ "اُسے فلحال اپنی جیت کے نشے میں ہی رہنے دیں کیونکہ جب انسان زیادہ خُوش ہوتا ہے تو وہ اُس خُوشی کو سنبھال نہیں پاتا پھر کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کرتا ہے جو ہمارے لئے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔"جونیجو کی بات پر قادر بلوچ نے نہ سمجھی سے اُسکی طرف دیکھا۔ "مریام شاہ جیسا تیز اور چالاک انسان کیسے کوئی غلطی کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔" "جب قادر بلوچ جیسا شاطر کھلاڑی مات کھا سکتا ہے تو مریام شاہ کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔"جونیجو کے لہجے میں کوئی چُھبن تھی جو نتاشا نے خاص محسوس کی تھی جبکہ بلوچ اُسکی بات کو اعزاز کے طور پر لیتا مُسکرایا۔ "صحیح کہا تم نے،اب تم ہی کوئی راستہ ڈھوںڈو جو نہ صرف مریام شاہ تک لے کے جائے بلکہ میرے اس نُقصان کو پُورا تو نہیں پر کم تو ضرور کرے۔۔۔۔۔۔" "آپ فکر نہ کریں،کل تک کا ٹائم دیں بس،چلتا ہوں اب میں۔۔۔۔۔۔"وہ کہہ کر اُٹھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چل دیا۔

"_________________________________"

وہ اس وقت کافی شاپ میں بیٹھا ایس پی عارف کا انتظار کر رہا تھا جو ابھی تک نہیں آئے تھے وہ اپنی واچ کی طرف دیکھتا پھر دروازے کی طرف دیکھنے لگا جہاں وہ وائٹ شلوار سُوٹ میں چلے آ رہے تھے۔ "جو بندہ وقت کا پابند نہیں وہ اپنا کام کیسے ایمانداری سے کر سکتا ہے۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑایا "معاف کیجیے گا تھوڑا لیٹ ہو گیا،تُمہیں تو پتہ کراچی کی ٹریفک۔۔۔۔۔۔"ایس پی عارف نے اپنے دیر سے آنے کی توجہیہ پیش کی اور پھر اسکی طرف غور سے دیکھا جو بلیک جینز پر بیلو شرٹ پہنے آنکھوں پر گلاسز چڑھائے آرام سے کافی پی رہا تھا۔ "مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو۔۔۔"وہ مُسکرایا۔ "نہیں بلکہ سمجھ نہیں پا رہا کہ آج تک میں نے تُمہیں دیکھا نہیں پھر تم مجھ پر ہی اعتماد کر کے اس کیس کے متعلق سارے ثبوت مجھے کیوں دینا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔"ایس پی عارف رات کو اُس کے فون آنے کے بعد اسی اُلجھن میں تھا اس لئے اپنی الجھن کا اظہار کرنے سے خود کو روک نہ پایا جبکہ اُس کے لبوں پر ایک پُرسرار سی مُسکراہٹ آئی۔ "تُم نے مُجھے چاہے آج تک نہ دیکھا ہو پر میں تُمہیں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ پچھلے بارہ سالوں سے تم اس کیس پر کام کر رہے ہو مگر کسی بھی ثبوت تک پہنچنے سے پہلے ہی اُس ثبوت کو ختم کر دیا جاتا ہے بس یہی سمجھو کہ میں تُمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔" "تُم کیسے جانتے ہو اُس کیس کے بارے،اور یہ بھی کہ آج سے بارہ سال پہلے کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔"ایس پی کے سوال پر وہ محفوظ ہوتا مُسکرایا۔ "تُمہارے لئے یہ جاننا زیادہ ضروری نہیں بلکہ تُم صرف یہ پوچھو کہ آج سے بارہ سال پہلے جو ہوا تھا وہ کس نے کیا تھا اور کیوں کیا تھا۔۔۔۔۔۔" "تو یہی بتادو،میرے خیال میں تم نے مُجھے یہی بتانے کے لئے کل کال کر کے یہاں بُلایا ہے۔۔۔۔۔۔"ایس پی عارف نے اپنے آگے پڑی کافی کا ایک گھونٹ بھرا۔ "وہ بھی بتاؤنگا پہلے تم یہ جان لو کہ کل مریام شاہ نے قادر بلوچ کا پانچ کڑور کا نقصان کیا ہے جس پر قادر بلوچ بہت تپا ہوا ہے۔۔۔۔۔" "یہ سب تم مجھے کیوں بتا رہے ہو اس سب کا اُس کیس سے کیا تعلق۔۔۔۔" "میں نے سُنا ہے تم بہت ایماندار پولیس والے ہو،ہر کیس کو حل کئے بنا بیٹھتے نہیں ہو تو پھر یہ بھی جان لو کہ قادر بلوچ اور مریام شاہ ایک دوسرے کے بہت بڑے دُشمن ہیں اور کیوں ہیں کیا وجہ بنی انکی دُشمنی کی کبھی یہ جاننے کی کوشش کی تم نے۔۔۔۔۔۔"وہ بہت غور سے ایس پی عارف کی طرف دیکھ رہا تھا جو اُسکی بات پر کچھ حیران ہوا۔ "تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔" "بہت کچھ،ابھی کے لئے بس اتنا ہی تم انکی دشمنی کی اصل وجہ ڈھونڈو تب تک میں ان دونوں کے خلاف تُمہیں مکمل ثبوت فراہم کرونگا،چلتا ہوں اب میں۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ "تو میں دوبارہ تم سے رابطہ کیسے کرونگا ۔۔۔۔۔" "تُم نہیں میں رابطہ کرونگا،جب مجھے مناسب لگے گا اور ایک بات کا خاص خیال رکھنا کسی کو بھی ہماری ملاقات کی خبر نہ ہو۔۔۔"اس نے ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھتے ہوئے اُسکے کان کے پیچھے لگی چپ کو مُسکراتی نگاہوں سے دیکھا۔ "تُمہارا نام کیا ہے تم کون ہو اتنا تو جان سکتا ہوں نہ میں۔۔۔۔۔"وہ جانے لگا کہ ایس پی عارف کی آواز پر ُمسکرایا اور پلٹ کر اسے دیکھا جو اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا تھا۔ "میرا نام بھی جان جاؤ گئے ایس پی،فکر نہ کرو اس کیس کو حل کرو اگلا کیس تُمہیں میرا ہی ملے گا۔۔۔۔۔۔"وہ گلاسز آنکھوں سے ہٹا کر شرارت سے دائیں آنکھ دبا کر چلا گیا تو ایس پی عارف اُسکی پُشت کو گھور کر رہ گیا۔۔

"_______________________________"

وہ کمرے میں مسلسل ادھر سے اُدھر چکر لگاتا اضطرابی کیفیت میں گھرا بار بار ہاتھ میں پکڑے موبائل کی طرف دیکھ رہا تھا تبھی سیل کی ٹون بجی تو اس نے ان باکس اوپن کیا جہاں Done کا میسج دیکھ کر وہ مُسکرا دیا اور گہرا سانس بھرتا خود کو ریلکیس کرنے لگا۔پھر کب سے پڑے کھانے کی طرف متوجہ ہوا اور کھانا کھا کر وہ گاڑی کی چابی اور موبائل پکڑتا نیچے آیا جہاں عامرہ خاتون چائے بنا کر لا رہی تھی۔ "ِتم کہیں جا رہے ہو جونیجو۔۔۔۔۔۔۔" "جی اماں،بلوچ سے ملنے جا رہاہوں۔۔۔۔۔۔"وہ اُن کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑ کر لبوں سے لگا گیا۔ "پر آج تو ہفتہ ہے اور ہفتے کو تو وہ اپنی نور حویلی میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔"عامرہ خاتون نے کُچھ حیرانگی سے دیکھا کیونکہ چھ ماہ ہو گئے تھے انکو یہاں آئے ہوئے اور ہفتہ اور اتوار کو قادر بلوچ نور حویلی اپنی فیملی کے ساتھ گُزارتا تھا جہاں صرف حویلی کے نوکر ہی جاتے تھے وہ بھی جو بہت سالوں سے وہاں تھے اتنی پابندی کیوں تھی یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ "جی پر اُس نے مُجھے بلوایا ہے،کوئی ضروری کام ہے،آپ دروازہ بند کر کے سو جائیے گا مجھے واپسی میں کافی وقت لگے گا میرے پاس دوسری چابی ہے میں آجاؤنگا۔۔۔۔۔۔"چائے کا ایک بڑا سا سپ لیتا وہ اُنکو کہتا وہ باہر کی طرف بڑھا۔ آج پہلی دفعہ وہ نور حویلی کا گیٹ پار کر کے اندر آیا تھا جہاں ہر طرف کھڑے گارڈز اُسے اس چیز کا بخوبی احساس دلا گئے تھے کہ قادر بلوچ جیسے بندے کو اتنی ہی سیکورٹی چاہئیے کیونکہ جتنے اُسکے دُشمن تھے وہ تو جتنا بھی چُھپے کم تھا۔ وہ ایک گارڈ کی راہنمائی میں سیدھا اندر آیا تھا شاید قادر بلوچ کے حُکم سے سب آگاہ تھے اس لئے اسے کسی نے بھی روکا نہیں تھا اور کُچھ پوچھ گچھ کی تھی۔ "آؤ آؤ جونیجو۔۔۔۔۔"گارڈ اسے ایک دروازے پر چھوڑ کر چلا گیا اس نے اندر قدم رکھے اسکے کانوں میں قادر بلوچ کی آواز پڑی جو کہ نائٹ گاؤں میں ملبوس صوفے پر بیٹھے مشروب سے لُطف اندوز ہو رہے تھے۔ "آؤ بیٹھو یہاں،کیسا لگا تُمہیں میرا یہ غریب خانہ۔۔۔۔۔"اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ "اسے غریب خانہ کہہ کر آپ ہم غریبوں کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے سامنے صوفے پر بیٹھ کر گویا ہوا تو بلوچ مُسکرایا ۔ "فکر نہ کرو میرے ساتھ ہاتھ ملایا ہے تُم نے،تُمہیں راتوں رات آسمان پر پہنچا دونگا۔۔۔۔۔"قادر بلوچ کی بات پر وہ تلخی سے مُسکرایا۔ "آسمان ہر پہنچے کی زرا خواہش نہیں بلوچ سائیں،بس کسی کو زمین کے اندر تک زندہ گاڑھنا ہے جس میں آپکے ساتھ کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔" "اُسکی تُم فکر نہ کرو،مریام شاہ کی طرف تو میرے خُود کے بہت حساب نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔" "میں بھی یہاں اُس کے حوالے سے ہی بات کرنے آیا ہوں۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے آنے کا مقصد بتانے لگا۔ "ہاں بولو۔۔۔۔۔۔" "آپ نے شاید ایک بات نہیں سوچی کہ اُس دن جو ٹرک میں بمب لگایا گیا وہ سب کروایا تو مریام شاہ نے تھا پر مریام شاہ کو اس بات کی خبر کیسے ہوئی کہ ٹرک میں لکڑی کے اندر سفید پاؤڈر کو ملایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" "مطلب۔۔۔۔۔" "مطلب یہ بلوچ سائیں کہ آپکے بلوچ ھاؤس میں کوئی مریام شاہ کا بندہ چُھپا ہوا ہے کسی بھی روپ میں جو ساری اطلاع مریام شاہ کو دے رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو کی بات پر قادر بلوچ کے کان کھڑے ہوئے اور بات اُسکی عقل میں آ سمائی۔ "تم بلکل ٹھیک کہہ رہے ہو،یہ اُس رات اچانک پروا گرام بنا تھا کہ کل ہر حال میں مال سپلائی کرنا ہے اور وہ فارم شہر سے دُور ہے جہاں تک مریام شاہ اتنی جلدی نہیں پہنچ سکتا تھا اور دوسری بات اُس لکڑی میں پاؤڈر کو ملانا ہے یہ بات تو صرف تُمہارے اور میرے درمیان طے ہوئی تھی تو کون ہے وہ جس نے یہ بات راتوں رات وہاں تک پہنچائی اور اگلی صُبح کسی نے اُس ٹرک میں بمب فٹ کروا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ کی پُر سوچ نگاہیں اُسکی طرف اُٹھی جو ہولے سے مُسکرادیا۔ "وہ بندہ آپ کے آس پاس ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔" "کون ہے بتاؤ مُجھے میں اُس نمک حرام کی جان لے لونگا جو بلوچ کی آنکھوں میں دُھول جھونک رہا ہے۔۔۔۔۔"وہ غُصے میں آ گیا۔ "ٹیک اٹ ایزی بلوچ سائیں۔۔۔۔۔"جونیجو نے پُرسکون ہو کر سگریٹ جلائی پھر ایک لمبا سا کش لے کر دُھواں ہوا خارج کیا۔ "مُجھ سے صبر نہیں ہو رہا کون ہے وہ بد بخت جس نے اپنی موت کو آواز دی ہے۔۔۔۔۔" "نتاشا خان،آپکی منظور نظر،مریام شاہ کی ڈیل سے یہاں تک آئی۔۔۔۔۔۔" "نتاشا۔۔۔۔۔"بلوچ نے بے یقینی سے اُسکی طرف دیکھا جس نے اپنا موبائل اسکی طرف بڑھایا بلوچ نے سکرین کی طرف دیکھا جہاں نتاشا اور مریام شاہ کی تصویر تھی مریام شاہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اور نتاشہ اُسکے سامنے کھڑی مُسکرا رہی تھی بلوچ کی آنکھیں طیش اور غُصے کی زیادتی سے پھٹنے کے قریب تھیں۔ "اس حرام ذادی کی اتنی جُرت کہ بلوچ کو دھوکہ دے اسے تو موت سے بھی بدتر سزا ملے گی،تم بس صُبح ہونے کا انتظار کرو،آٹھ ماہ سے یہ مُجھے اُلو بناتی رہی۔۔۔۔۔۔۔" "اور حیرت کی بات کہ آپ بنتے رہے،کبھی شک ہی نہیں ہوا آپ سے،گُستاخی معاف بلوچ سائیں پر آپ جتنے بھی تیز اور چالاک بنے پر آپ کے اندر کسی کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں،میرے نزدیک وہ دُشمن ہی کیا جو اپنے دُشمن کی اصل پہچان نہ رکھتا ہو چاہے وہ کسی بھی روپ میں ہو ۔۔۔۔۔۔۔"اسکا انداز جلا دینے والا تھا۔ "تم ٹھیک کہہ رہے ہو میں نے اس نور حویلی کو تو دُشمن کی آنکھ سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر طریقہ اپنایا مگر بلوچ ہاؤس اور خود کو دُشمن کے واروں سے نہیں بچا سکا،پر اب اور نہیں جتنی خُوشی منانی تھی منا لئی مریام شاہ نے اب میری باری اور اس کے لئے مُجھے تم جیسے عقلمند اور دیانتدار بندے کی ضرورت،آج سے تُم پر میرے آفس اور کالے دھندے کی زمعہ داری کے ساتھ بلوچ ھاؤس اور اس نور حویلی کی زمعداری بھی قبول کرو اور صُبح سے تُم نور حویلی کی ساری سکیورٹی چیک کرو خاص طور پر گارڈز کو،نہ جانے کیوں اب مُجھے اپنے بندوں پر بھی اعتماد کرنا مُشکل لگ رہا۔۔۔۔۔۔۔۔" "اب اتنی بھی بے اعتمادی کی ضرورت نہیں،بس اپنے آس پاس اُن بندوں کو رکھیں جن پر آپکو پُورا اعتماد ہو،جو کافی عرصے سے آپ کے ساتھ ہیں جیسے کہ گُھمن،میں نے اُسکے اندر آپ کے لئے وفاداری ہی دیکھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جونیجو اب اپنے مطلب کی بات ک ی طرف آیا۔ "ہاں گُھمن دو سال سے میرے ساتھ ہے،بلوچ ھاؤس کی زمعداری اُسی کے سر پر ہے،وہ بھی قابل اعتبار بندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ اُس سے مُتفق ہوتا اُسے پُرسکون کر گیا۔ "اوکے اب میں چلتا ہوں،آپ آرام کریں اور بے فکر ہو جائیں اب مریام شاہ کا ہر وار خالی جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مظبوط لہجے میں بولا۔بلوچ نے سراہتی نگاہوں سے دیکھا۔ "مُجھے یقین ہے تم پر بابا،تُمہارا دماغ تو بہت تیز ہے جس کا مُجھے بہت فائدہ ہوگا۔۔۔۔۔۔" "ہاں بلکل جیسے مریام شاہ کو بہت فائدہ ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔"وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا بظاہر مُسکرا کر بولا۔ "جی کوشش تو یہی ہو گی،اجازت دیں۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ کے سر ہلانے پر وہ باہر آیا اس نے نظر اپنے دائیں بائیں دُوڑائی جہاں وہ اس وقت کھڑا تھا اس سے آگے ایک راہداری تھی جس سے وہ گُزرتا ہال میں آ گیا تھا ایک نظر سب کمروں پر ڈالتا وہ ہال کے دروازے سے باہر نکلا کہ آگے سے اندر داخل ہوتے نسوانی وجود سے بُری طرح ٹکرایا اگر وہ اُسے تھام نہ لیتا تو یقیناً وہ وجود زمین بوس ہوتا اس نے نظر اُس وجود پر ٹکائے جو کوئی بائیس تئیس سالہ ایک خُوبصورت لڑکی تھی جو آف وائٹ سُوٹ میں ملبوس سٹیپ کٹے بالوں کو شولڈر پر سیٹ کیے کافی اٹریکٹیو گرل تھی جبکہ دُوسری طرف امتل بلوچ جو اپنی بے ترتیب سانسوں کو ٹھیک کرتی سیدھی ہوئی تھی اس پر نظر پڑتے ہی اپنا آپ بھول گئی تھی بلیک شلوار قمیض میں ملبوس جونیجو اپنی سحر انگیز شخصیت کا تاثر چھوڑتا اُسکا دل دھڑکا گیا وہ یک ٹک اُسے دیکھنے لگی جو اپنی مردانہ وجاہت کا مُنہ بولتا ثبوت تھا۔ "کیا آپ راستہ دیں گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔جونیجو اپنے مخصوص لہجے میں بولتا امتل بلوچ کو ہوش کی دُنیا میں لایا۔ "اوہ صوری،آپ کا نام کیا ہے۔۔۔۔۔۔"وہ جلدی سے بولی مگر اسکے سامنے سے ہٹی نہ تھی۔ "ایکسیوزمی۔۔۔۔."جونیجو کو ناگوار گُزرا تھا۔ "آئی ایم امتل بلوچ،بلوچ قادر کی بڑی بیٹی اور آپ۔۔۔۔۔"اُسے شاید زیادہ ہی اسکے بارے میں جاننے کی بے تابی تھی جو اسکے ماتھے پر پڑی ناگوار سلوٹوں کے باوجود پوچھنے لگی تھی۔ "جونیجو۔۔۔۔۔۔۔" "اوہ تو آپ ہیں جونیجو،بہت سُن رکھا آپ کے بارے آج دیکھنے کا موقع بھی مل گیا۔۔۔۔۔۔" وہ پسندیدہ نظروں سے اسے سر سے پاؤں تک دیکھنے لگی۔ "مُجھے اب چلنا چاہئیے۔۔۔۔۔۔"وہ وہاں سے ہٹنے لگا۔ "اوکے،بہت اچھا لگا آپ سے مل کر مسٹر جونیجو،اُمید ہے بہت جلد پھر ملیں گئے۔۔۔۔۔۔"اُس کے کہنے پر بنا دھیان دئیے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا اور گیٹ سے نکلنے سے پہلے اس نے سائیڈ مرر سے دیکھا تھا جو ابھی تک دروازے پر کھڑی اسے دیکھ رہی تھی جونیجو کے لبوں کو مُسکراہٹ نے چُھو لیا۔

"_________________________________"

   1
0 Comments